نئی دہلی،7جون؍(آئی این ایس انڈیا)ہریانہ حکومت نے سال 2007کے سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین دھماکے کیس کی تحقیقات کا ذمہ ایس آئی ٹی کے جس سابق سربراہ کو سونپا تھا، انہوں نے پیر کو کہا کہ ان کی قیادت والی ٹیم کے اندور پہنچنے پر مدھیہ پردیش پولیس سے انہیں کوئی تعاون نہیں ملا تھا۔ایس آئی ٹی کے سابق سربراہ وکاس نارائن رائے نے بتایا کہ ان کا بھی آغاز میں خیال تھا کہ دھماکہ ایک پاکستانی دہشت گرد تنظیم کا کام ہے، جسے کالعدم تنظیم ’’سیمی‘‘سے مدد ملی ہے۔تاہم جرم کو انجام دینے والے کی طرف سے استعمال میں لائے گئے دھماکہ خیز مواد کے وسیع مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مادہ ان چیزوں کے برابر نہیں تھا، جن کا استعمال لشکر طیبہ یا سیمی جیسی تنظیمیں کرتی ہیں۔مزید تحقیقات انہیں ہندو دائیں بازو گروپ کے مشتبہ افراد کی طرف لے گئی۔انہوں نے بتایا کہ ہماری تحقیقات ہمیں اندور لے گئی جہاں اٹیچی (دھماکہ خیز مواد رکھنے میں استعمال )خریدی گئی تھی۔مارکیٹ کے وسیع سروے پر ہم نے پایا کہ دیگر مواد بھی اسی مقام سے خریدے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم جس طرح کا تعاون مقامی پولیس سے چاہتے تھے وہ نہیں ملا اور اس کے سبب ہمیں معاملے کے پیچھے موجود پورے اسرار کو حل کرنے میں کچھ وقت لگ گیا۔انہوں نے بتایا کہ سنیل جوشی کے قتل کیس کو چھپانے کی ایک کوشش تھی۔مزید تحقیقات ایس آئی ٹی کو اس نتیجے تک لے گئی کہ ہندو بنیاد پرست کیس میں ملوث تھے۔